اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفاتحہ حاشیہ نمبر۴

انسان کا خاصّہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتاہے، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کروہ محسوس کرتا ہے کہ اُس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائےجو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے۔ اللہ کی تعریف میں رحمن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نقطہ پوشیدہ ہے ۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہر بانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدر وسیع ہے، ایسی بے حد وحساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کالفظ  بول کر بھی جی نہیں بھرتا۔اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیاگیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ‘‘سخی ’’کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر ‘‘داتا ’’ کا اضافہ کرتے ہیں ۔رنگ کی تعریف میں جب ‘‘گورے ’’ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ‘‘چٹےّ ’’  کا لفظ اور بڑھا دیتےہیں ۔درازیِ قد کے ذکر میں جب ‘‘لمبا ’’ کہنے سے تسلّی نہیں ہوتی تو اس کے بعد ‘‘تڑنگا ’’ بھی کہتے ہیں۔