اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۴١

یہ خطاب اُن کے علما سے ہے ، جو خود بھی اس حقیقت سے ناواقف نہ تھے کہ یہودیت اور عیسائیت اپنی موجودہ خصوصیّات کے ساتھ بہت بعد میں پیدا ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود وہ حق کے اپنے ہی فرقوں میں محدُود سمجھتے تھے اور عوام کو اسی غلط فہمی میں مبتلا رکھتے تھے کہ انبیا کے مدّتوں بعد جو عقیدے، جو طریقے اور جو اجتہادی ضابطے اور قاعدے ان کے فقہا ، صوفیہ اور متکلّمین نے وضع کیے، انہیں کی پیروی پر انسان کی فلاح اور نجات کا مدار ہے۔ ان علما سے جب پوچھا جاتا تھا کہ اگر یہی بات ہے، تو حضرت ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ وغیرہ انبیا علیہم السّلام آخر تمہارے اِن فرقوں میں سے کس سے تعلق رکھتے تھے، تو وہ اس کا جواب دینے سے گریز کرتے تھے، کیونکہ ان کا علم انہیں یہ کہنے کی تو اجازت نہ دیتا  تھا کہ ان بزرگوں کا تعلق ہمارے ہی فرقے سے تھا۔ لیکن اگر وہ صاف الفاظ میں یہ مان لیتے کہ یہ انبیا نہ یہُودی تھے، نہ عیسائی ، تو پھر ان کی حجّت ہی ختم ہو جاتی تھی۔