اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۹۷

اس آیت کا ایک مفہُوم تو یہ ہے کہ حا کموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دُوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دُوسرے شخص کا ہے، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جا ؤ ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکمِ عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دِلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط  بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جا ؤ گے۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما ان بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ۔ فمن قضیت لہ بشی ء من حق اخیہ، فا  نما ا قضی لہ قطعۃ من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی  تو ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لا ؤ  اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سُن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے۔