اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۰۵

باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔ کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اُسے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسبِ موقع اور حسب ِ امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا ، جب تک کفّار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں۔

                اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے  کہ جب نظامِ باطل کی جگہ نظامِ حق قائم ہو جائے، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہلِ حق بالکل حق بجانب ہوں گے، جنہوں نے اپنے دَورِ اقتدار میں  نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنینِ صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو اُن کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اُٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایانِ شان نہ تھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عُقْبہ بن ابی مُعَیط اور نَضْر بن حارث کا قتل اور فتح ِ مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفوِ عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔