اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲١۲

یعنی وہ سبب دُور ہو جائے ، جس کی وجہ سے مجبُوراً تمہیں راستے میں رُک جانا پڑا تھا۔ چونکہ اُس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رُک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمنِ اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُوپر کی آیت میں ”گھِر جانے“ اور اس کے بالمقابل یہاں”امن نصیب ہوجانے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن جس طرح”گھِر جانے“ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دُوسرے تمام موانع شامل ہیں، اسی طرح ”امن نصیب ہو جانے“ کا مفہُوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دُور ہو جانے پر حاوی ہے۔