اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۳۳

مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ ، جن کے ذہن پر نیکی اور صُلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلّط تھا، کفّارِ مکّہ اور یہُودیوں کے مذکورہٴ بالا اعتراضات سے متاثر ہوگئے تھے۔ اس آیت میں انھیں سمجھایا گیا ہے  کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ اُمید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی۔ اُن کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں۔  وہ تو در اصل کیچڑ اُچھالنا چاہتے ہیں۔ انھیں یہ بات کَھل رہی ہے کہ تم اِس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دُنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو۔ پس جب تک وہ اپنے کُفر پر اَڑے ہوئے ہیں اور تم  اس دین پر قائم ہو، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اور ایسے دُشمنوں کو تم معمُولی دُشمن بھی نہ سمجھو۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے، وہ کمتر درجے کا دُشمن ہے۔ مگر جو تمہیں دینِ حق سے پھیرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارا بدترین دُشمن ہے۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دُنیا ہی خراب کرتا ہے، لیکن یہ دُوسرا تمہیں آخرت کے اَبدی عذاب میں دھکیل  دینے پر تُلا ہوا ہے۔