اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲٦۸

یہ تقریباً ایک ہزار برس قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ اُس وقت بنی اسرائیل پر عَمالِقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے سردارانِ بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسُوس کی کہ کوئی اور شخص اُن کا سربراہ کا ر ہو، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں۔ لیکن اُس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیّت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثّر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق اُن کے ذہنوں سے نکل گیا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے درخواست جو کی، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اوّل میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، وہ حسبِ ذیل ہیں:
”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔۔۔۔۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ، تُو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ  پر نہیں چلتے۔ اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔۔۔۔۔ یہ بات سموئیل کو بُری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دُعا کی  اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اس کو مان کیونکہ انہوں  نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔۔۔۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب  تھے، خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائیگا اورتمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا  اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں  کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے  نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں  کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جا ؤ گے اور تم اُس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہوگا فریاد کرو گے،  پر اس دن خدا وند تم کو جواب نہ دے گا۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سُنی اور کہنے لگے نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں، جو ہمارے اُوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔۔۔۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا، تُو اُن کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔“ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲)
”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اِس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چُن لیا او رجس کے لیے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خدا وند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خدا وند کے حکم سے سرکشی نہ کرو  اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے، خدا وند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو، تو خدا وند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ اور تم جان لوگے اور دیکھ بھی لوگے کہ تم نے خداوند کے حضُور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔۔۔۔۔ اب رہا میں ،  سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دُعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے، تم کو بتا ؤ ں گا۔“(باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳)

                کتاب سموئیل کی اِن تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اُس کے نبی کو پسند نہ تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اِس مقام پر سردارانِ بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصّے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ اُن کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا۔ یہاں تو یہ بتانا مقصُود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بُزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اند ر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گِر گئے۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں۔