اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۷۵

مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ  یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت نہ تھی  ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی۔