اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۸۴

یہ آیت  ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔

اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔  پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر  کھٹکتا ہے کہ اگر اللی نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی  آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت  میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اُٹھائے گا۔