اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۸٦

طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قران کی اِصطلاح میں طاغوت سے مُراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی  کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصُولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر دعملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری  سے اُصُولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی  کرنے لگے۔ یہ کففر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے  کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے مُلک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے ، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔