اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۱۹

یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا  جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ ء نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔