اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۲۱

ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطہء نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بدعمل بھی۔