اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۴۸

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پا ؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں  فرمایا۔

اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت  انسان کے ذہن نشین کر نا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہء انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے ۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے۔ اپنے اِس مقامِ لائق ، اپنی اِس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔