اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۵۲

قرآن اِس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بُھگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گار انہ زندگی میں مبتلا ہو گیا، اُس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اِصلاح کرنا چاہے ، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں ، جو کچھ تُو کر چکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو  ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بَھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بَھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بَھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اللہ کا فضل ہے، چاہے عنایت فرمائے، چاہے نہ فرمائے۔ اسی طرح جس برائی پر تمہیں سزا ملتی ہے، وہ بھی برائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہمرشتہ  ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دُھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بَھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت  کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بَھلائی کی تھی۔ اور جس بَھلائی کو رَد کر دیتا ہے، اُسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بَھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے ربّ کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اُس قصُور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب ِ جُرم کی خواہش موجود ہو۔ اور  اپنی رحمت سے معافی اُس قصُور پر دیتا ہے، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ  کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے  مجرم ، کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی رَوش اختیار کر نے کے لیے تیار ہو۔