اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۵۳

اِس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اُوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی۔ اِس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گنا ہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوعِ انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم علیہ السّلام کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوّت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائِں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دُہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ قبولِ توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اُتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے  دارُالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اُتارے گئے، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت اُن کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم اُن کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اُتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے اُن کو اُس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اُوپر حاشیہ نمبر ۴۸ میں کیا جا چکا ہے۔