اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۵۴

 آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اُس حقیقت کی طرف اشارہ  کر رہی ہے جو  اس ظاہری  پردے کے پیچھے مستُور ہے۔ کہیں اُن معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے ، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں ، اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں”آیت“ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔