اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۸۰

سلسلہء عبارت کو پیش ِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصُود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اورع کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ یہاں تو یہُود یوں کے اِس زعمِ باطل کی تردید مقصُود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دُوسرے انسانوں سے نہیں ہے، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے ، وہ ایمان اور عملِ صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے ربّ سے اپنا اجر پائے گا۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسڑوں پر۔