اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۹۲

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس  اور خَزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِ جنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہُودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما  ہوجاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے  بُوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہُودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہُودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انہیں چھُڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لیے دین کو جائز ٹھہرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اِس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ  کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے ، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔