اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر۴۴

یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا  تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم ؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰ  ؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم ؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ  تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیح ؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ  ؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری  طور پر  بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریم ؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔  اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ  ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح   بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ)۔