اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر۵

ُحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ”آیاتِ محکمات“ سے مراد وہ آیات  ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہٴ    مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اُس غرض کو یہی آیتیں پُورا کرتی ہیں۔ اُنہی میں اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے، اُنہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، اُنہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ اُنہی میں دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔ اُنہی میں عقائد ، عبادات، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں مشغول رہے گا۔