ابتدائے اسلام میں”السلام علیکم“ کا لفظ مسلمانوں کے
لیے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان
دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں
تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں، دوست اور خیر خواہ ہوں ،
میرے پاس تمہارے لیے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا نہ تم مجھ
سے دُشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو۔ جس طرح
فوج میں ایک لفظ شِعار(Password) کے طور پر مقرر
کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے
ہوئے اسے اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ فوجِ مخالف کے آدمیوں سے ممیز
ہوں، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا
تھا۔ خصوصیّت کے ساتھ اُس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اَور بھی
زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان اور
کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان
سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو۔
|