اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۲۹

مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرنے  کے بعد بھی ابھی تک بلا کسی مجبوری و معذوری کے اپنی کافر قوم ہی کے درمیان مقیم تھے اور نیم مسلمانہ اور نیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پر راضی تھے، درآنحالیکہ ایک دارالاسلامہیا ہو چکا تھا جس کی طرف ہجرت کر کے اپنے دین و اعتقاد کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا۔ یہی ان کا اپنے نفس پر ظلم تھا کیونکہ ان کو پوری اسلامی زندگی کے مقابلہ میں اس نیم کفر و نیم اسلام پر جس چیز نے قانع و مطمئن کر رکھا تھا وہ کوئی واقعی مجبوری نہ تھی، بلکہ محض اپنے نفس کے عیش اور اپنے خاندان ، اپنی جائیداد و املاک اور اپنے دنیوی مفاد کی محبت تھی جسے انہوں نے اپنے دین پر ترجیح دی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۶)