اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۳۳

ظاہر یوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالتِ جنگ کے لیے ہے اور حالتِ امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب یہی شبہہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو حضور ؐ  نے فرمایا  صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فا قبلوا صدقتہ۔”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو۔“ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر  میں قصر فرمایا ہے۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ  العٰلمین فصلی رکعتین۔ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں “۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے۔