اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١٦٦

ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لا ؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہواہے۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اُسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دُشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اُس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اُن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے مطالبہ یہ  کیا گیا ہے کہ دُوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں۔