اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۷۲

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو۔ جس طرح تمام دُنیوی جماعتیں اور مجلسیں اپنے اجتماعات میں کسی ممبر کے بلا عُذر شریک نہ ہونے کو اس کی عدم دلچسپی پر محمُول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے والے پر اسے ممبری سے خارج کر دیتی ہیں ، اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رُکن کا نماز باجماعت سے غیر حاضر رہنا اُس زمانہ میں اِس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ شخص اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اور اگر وہ مسلسل چند مرتبہ جماعت سے غیر حاضر رہتا تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بنا پر سخت سے سخت منافقوں کو بھی اس زمانہ میں پانچوں وقت مسجد کی حاضری ضرور دینی پڑتی تھی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شمار کیے ہی نہ جا سکتے تھے۔ البتہ  جو چیز ان کو سچے اہلِ ایمان سے ممیز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے ، وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ، نماز سے فارغ ہو کر بھی مسجد وں میں ٹھیرے رہتے تھے ، اور ان کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ نماز سے ان کو حقیقی دلچسپی ہے ۔ بخلاف اس کے اذان کی آواز سُنتے ہی منافق کی جان پر بن جاتی تھی، دل پر جبر کر کے  اُٹھتا تھا، اس کے آنے کا انداز صاف غمازی کرتا تھا کہ آ نہیں رہا بلکہ اپنے آپ کو کھینچ کر لا رہا ہے، جماعت ختم ہوتے ہی اس طرح بھاگتا تھا گویا کہ کسی قیدی کو رہائی ملی ہے، اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شخص خد اکے ذکر سے کوئی رغبت نہیں رکھتا۔