اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۷۷

اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے ۔ منافق اور یہودی اور بُت پرست سب کے سب  اُس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی  راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کر نے پر تلے ہوئے تھے۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی نہ تھِ جو وہ اِس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصّہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔  اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اُٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ  بدگوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اُسے حق پہنچتا ہے ۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جا ؤ اور بُرائیوں سے درگزر کرو، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بُردبار  ہے، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصُوروں  پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے قریب تر  ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظّرف بنو۔