اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۹١

یعنی جرأت ِ مُجرمانہ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ رسُول کو رسُول جانتے تھے اور پھر اس کے قتل کا اقدام کیا اور فخر یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے ۔ اُوپر ہم نے گہوارے کے واقعہ کا جو حوالہ دیا ہے ا س پر غور کرنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہُودیوں کے لیے مسیح علیہ السّلام کی نبوّت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی ۔ پھر جو روشن نشانیاں انہوں نے حضرت موصوف سے مشاہدہ کیں ( جن کا ذکر سُورۂ آلِ عمران رکوع ۵ میں گزر چکا ہے) ان کے بعد تو یہ معاملہ بالکل ہی غیر مشتبہ ہو چکا تھا کہ آنجناب اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ اس لیے واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہم اِس جرم کا ارتکاب اُس شخص کے ساتھ کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہے۔

بظاہر یہ بات بڑی عجب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے اُسے قتل کر دے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز و اطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں جو اُن کی بُرائیوں پر انہیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے ان کو روکے۔ ایسے لوگ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیشہ بد کردار قوموں میں قید اور قتل کی سزائیں پاتے ہی رہے ہیں۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ بخت نَصّر نے جب بیت المَقْدِس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اُسے ایک تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے یہُودیوں سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے جواب دیا”یہاں زکریّا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا۔ وہ ہماری بُرائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آگئے تو ہم نے اُسے مار ڈالا“۔ بائیبل میں یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے  کہ جب بنی اسرائیل کی بد اخلاقیاں حد سے گزر گئیں اور حضرت یرمیاہ نے اُن کے متنبہ کیا کہ اِن اعمال کی پاداش میں خدا تم کو دُوسری قوموں سے پامال کرادے گا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ شخص کسدیوں(کلدانیوں) سے ملا ہوا ہے اور قوم کا غدار ہے ۔ اس الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ خود حضرت مسیح  ؑ کے واقعہ ٔ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے ہی حضرت یحییٰ کا معاملہ پیش آچکا تھا۔ یہودی بالعموم ان کو نبی جانتے تھے اور کم از کم یہ تو مانتے ہی تھے کہ وہ ان کی قوم کے صالح ترین لوگوں میں سے ہیں۔ مگر جب انہوں نے ہیرو دیس(والیِ ریاست یہودیہ) کے دربار کی برائیوں پر تنقید کی تو اسے برداشت نہ کیا گیا۔ پہلے جیل بھیجے گئے ، اور پھر والیِ ریاست کی معشوقہ کے مطالبے پر ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہُودیوں کے اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو سُولی پر چڑھانے کے بعد سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہو“ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے”۔