اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۹۵

یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور کہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اُٹھالیا۔  اب رہا یہ سوال کہ اُٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ قرآن نہ اِس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ اُن کو جسم  و رُوح کے ساتھ کرۂ زمین سے اُٹھا کر آسمانوں پر کہیں  لے گیا ، اور نہ یہی  صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی رُوح اُٹھائی گئی۔ اس لیے قرآن کی بُنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے  اور نہ اثبات ۔ لیکن قرآن کے اندازِ بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسُوس ہوتی ہے کہ اُٹھا ئے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال مسیح علیہ  السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمُولی نوعیّت کا ہے۔ اس غیر معمُولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے:

ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و رُوح سمیت اُٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور اُن اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ اُلوہیّتِ مسیح کا قائل ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن نے  نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہٖ وہی”رفع“(Ascension) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اِس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتابِ مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو۔

دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السّلام کا اُٹھایا جانا ویسا ہی اُٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اُٹھا یا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب  کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَا ہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ  نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ  رہے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ ”یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کر نا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا“۔

تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمُولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اُسے اللہ نے اُٹھا لیا  تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ ” اللہ زبردست طاقت رکھنے والا  اور حکیم ہے“۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزون و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت ِ قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمُولی ظہُور ہوا ہو۔

اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سُورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔(آیت ۵۵)۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر ۵۱ میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبضِ رُوح ، اور قبضِ رُوح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ اُن قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبضِ رُوح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبضِ رُوح و جسم کا واقعہ تمام نوعِ انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پُوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ  کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے اُن قرائن میں ایک اَور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو اُلٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح  لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاس اعتقاد ، یعنی اُلوہیّت ِ مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت اُن کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السّلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجّال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں( تفسیر سُورۂ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے)۔ اُن سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرینِ قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا؟