اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲۰

وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے اُمّت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کے متعلق سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ١۸٦ میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کُل مال کے 1/3  حصّہ کی حد تک وصیّت کرنے کا اختیار ہے ، اور یہ وصیّت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانونِ وراثت کی رُو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصّہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیار ِ تمیزی سے حصّہ مقرر کر دے۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے ، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے ، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے ، تو اس کے حق میں وصیّت کے ذریعہ سے حصّہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دُوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہِ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے  وصیّت کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کُل ملکیت میں سے 2/3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے  نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصّہ ملے گا۔ اور 1/3 یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصُوص خاندانی حالات کے لحاظ سے (جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیّت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیّت میں ظلم کرے، یا بالفاظِ دیگر اپنے اختیارِ تمیزی کو  غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی  کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہےکہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کر لیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیّت کو درست کر دے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ” یتیم پوتے کی وراثت“۔