اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲۰۵

موجودہ بائیبل میں زَبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں ہے۔ اس میں بکثرت مزامیر دُوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنّفین کی طرف منسُوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسُوس ہوتی ہے۔ اِسی طرح بائیبل میں امثالِ سلیمان ؑ کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دوباب تو صریحاً الحاقی ہیں، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصّہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے ۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت  ایّوب ؑ کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایّوب ؑ  کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے۔۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایّوب ؑ  کے جس صبرِ عظیم کی تعرف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایّوب ؑ  اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے۔

ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس اور بعض دُوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی رُوح وجد کرنے لگتی ہے۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسُوس ہوتی ہے۔ ان کی اخلاقی تعلیم، ان کا شرک کے خلاف جہاد، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے  ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں۔