اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲١۳

یہاں خود مسیح کو  رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک رُوح) کہا گیا ہے، اور سُورۂ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ  اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ  ( ہم نے پاک رُوح سے مسیح کی مدد کی)۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السّلام کو وہ پاکیزہ رُوح عطا کی تھی جو بدی سے نا آشنا تھی۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی، اور از سر تا پا فضیلتِ اخلاق تھی۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین رُوح اللہ قرار دے لیا، اور رُوح القدس(Holy Ghost)  کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی رُوح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا رُوح القدس کو بنا ڈالا گیا۔ یہ عیسائیوں کا دُوسرا زبر دست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ لُطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل  متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ “فرشتے نے اسے (یعنی یوسف نجار کو) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے”۔