اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲١۵

یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے  اندر پایا جاتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے ۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آگئی  تھی کہ کلام اللہ نے مسیح  کی شکل میں ظہُور کیا اور رُوح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور رُوح القدس کی الوہیّت کو بھی خداوندِ عالم کی اُلوہیّت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اُوپر لازم کر لیا۔ اس زبر دستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابلِ حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ ٔ توحید کے باوجود عقیدۂ تثلیث کو، اور عقیدۂ تثلیث کے باوجود عقیدۂ توحید کو کس طرح نباہیں۔ تقریباً ۱۸ سو برس سے مسیح علماء اِسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہےہیں۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں۔ اِسی پر ایک گروہ نے  دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے۔ اسی پر ان کے سارے علمِ کلام کا زور صرف ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے ، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آجائیں ، مسیح اور رُوح القدس کی اُلوہیّت کا تخیل چھوڑ دیں، صرف اللہ کو الٰہِ واحد تسلیم کر لیں، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالُوہیّت۔