اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲١٦

یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے ۔ بائیبل کے عہدِ جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے (خصُوصاً پہلی تین انجیلوں سے) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ”باپ“ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصُوصیّت نہیں ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا  کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پُرانے عہد نامہ میں موجود ہیں۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا۔ ان کا عجیب و غریب نظریّہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے، اور اس کے کلمے اور اس کی رُوح کا جسدی ظہُور ہے، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ اداکرے۔ حالانکہ  اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے  کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے۔ یہ عقیدہ  ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اُس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیّت سے متأثر ہو کر مبتلا ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ  و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دُور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔