اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲۷

توبہ کے معنی پلٹنے اور رُجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا ، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرِ نو اس کی طرف منعطف ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف اُن بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصُور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے  جہالت کا پردہ ہٹتا ہے  تو شرمندہ ہو کر اپنے قصُور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کُھلا پائیں گے کہ     ؎

ایں درگہِ ما   درگہِ نومیدی نیست

صد  بار  اگر  توبہ  شکستی     باز  آ

مگر توبہ اُں کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اُس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یُغرغِر۔” اللہ بندے کی توبہ بس اُسی وقت تک قبُول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں“۔ کیونکہ امتحان کی مُہلت جب پُوری ہوگئی اور کتابِ زندگی ختم ہو چکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے  اور دُوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو  کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اُس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔