اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۴٦

سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دُوسرے لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعتِ اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہوسکتی ہے جو لونڈی کے دی جائے؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں۔“ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ اس رکوع میں لفظ  مُحْصَنٰتُ (محفوظ عورتیں) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک  ”شادی شدہ عورتیں“ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو۔ دُوسرے”خاندانی عورتیں“ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں۔ آیتِ زیر بحث میں ”محصَنات“ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دُسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح  کی حفاظت  حاصل ہو جائے(فَاِذَآ اُحْصِنَّ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ  سزا ہے جو مذکور ہوئی۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی مُحْصَنہ ہوتی ہے۔ دُوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک  اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے مُحصَنہ نہیں ہے، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ  بھی اَدھُوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی، اور نہ اُسے معاشرت   میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہوگی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ سُورہٴ نُور کی دُوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلہ میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا  نصف بیان کی گئی ہے۔ رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں، تو وہ غیر شادی شدہ محصَنات سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دوہری حفاظت کو توڑتی ہیں۔ اگر چہ قرآن ان کے لیے سزا ے رجم کی تصریح  نہیں کرتا ، لیکن نہایت لطیف طریقہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے  جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے تو رہ جائے ، نبی کے  ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔