یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جُہلاء اور نواحی
مدینہ کے یہُودیوں کی طرف۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت
ناگوار تھیں جو تمدّن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصّبات اور
رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں۔ میراث میں لڑکیوں کا حصّہ۔ بیوہ عورت کا
سُسرال کی بندشوں سے رہائی پانا اور عدّت کے بعد اس کا ہر شخص سے نکاح کے
لیے آزاد ہو جانا۔ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہونا۔ دو بہنوں کے ایک ساتھ
نکاح میں جمع کیے جانے کو ناجائز قرار دینا۔ متبنّٰی کو وراثت سے محرُوم
کرنا اور منہ بولے باپ کے لیے متبنّٰی کی بیوہ اور مطلقہ کا حلال ہونا۔ یہ
اور اس طرح کی دُوسری اصلاحات میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جس پر بڑے بوڑھے
اور آبائی رسُوم کے پرستار چیخ چیخ اُٹھتے تھے۔ مدّتوں اِن احکام پر چہ
میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں۔ شرارت پسند لوگ ان باتوں کو لے کر نبی صلی اللہ
علیہ وسلم اور آپ کی دعوتِ اصلاح کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے پھرتے تھے۔
مثلاً جو شخص کسی ایسے نکاح سے پیدا ہو ا تھا جسے اب اسلامی شریعت حرام
قرار دے رہی تھی ، اس کو یہ کہہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا تھا کہ لیجیے، آج
جو نئے احکام وہاں آئے ہیں ان کی رُو سے آپ کی ماں اور آپ کے باپ کا تعلق
ناجائز ٹھیرا دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ نادان لوگ اُس اصلاح کے کام میں
رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اُس وقت احکامِ الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا۔ |