اس بات پر فقہا ءِ اُمّت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو
سے تعدّد ازواج کو محدُود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں
رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔
چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غَیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو
بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ
لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اِسی طرح ایک دُوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی
پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔ نیز یہ آیت تعدّد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط
کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پُوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے
کے جواز سے فائدہ اُٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔
حکومت ِ اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں
کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو اُن کی داد رسی کریں۔
|