اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۵

اس بات پر فقہا ءِ اُمّت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعدّد ازواج کو محدُود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غَیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اِسی طرح ایک دُوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔

نیز یہ آیت تعدّد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پُوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اُٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔  حکومت ِ اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو اُن کی داد رسی کریں۔

بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلُوب  و مرعُوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآں کا اصل مقصد تعدّدِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ ٴ نظر سے فی الاصل بُرا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں ۔ تعدّد ازواج کا فی نفسہ١ایک بُرائی ہونا بجائے کود ناقابلِ تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدّنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدّن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدّدِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسُوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدّدِ ازواج فی نفسہ ایک بُرائی ہے اُن کو یہ اختیا ر تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن  کی طرف منسُوب کریں ۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس جو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً  بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو  کہ فی الواقع وہ اس کو مسدُود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب” سنت کی آئینی حیثیت “، ص ۳۰۷ تا ۳۱۶