یعنی ہم تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی
باتوں پر پکڑ کر اپنے بندوں کو سزا دیں۔ اگر تمہارا نامہٴ اعمال بڑے جرائم
سے خالی ہو تو چھوٹی خطا ؤ ں کو نظر انداز کر دیا جائے
گا اور تم پر فردِ جُرم لگائی ہی نہ جائے گی۔ البتہ اگر
بڑے جرائم کا ارتکاب کر کے آ ؤ گے تو پھر جو مقدمہ تم پر قائم کیا جائے گا
اس میں چھوٹی خطائیں بھی گرفت میں آجائیں گی۔ یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ
میں اُصُولی فرق کیا ہے۔ جہاں تک میں نے قرآن اور سُنت میں غور کیا ہے مجھے
ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو
بڑا گناہ بناتی ہیں: (١) کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا
گیا ہو ، یا والدین ہوں، یا دُوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق
جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر
گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اِسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلمِ عظیم
کہا گیا ہے۔ (۲)اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس
کی بنا پر آدمی اللہ کے امر ونہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے
قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، اور عمداً اُن کاموں کو نہ کرے
جن کا اُس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور
ناخداترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا
اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق“ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے
گئے ہیں۔ |