اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر٦١

اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں  اور بیوی میں ناموافقت ہوجائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے  کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے  کہ دونوں مِل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صُورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں، اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں۔ فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صُورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں، ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خُلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیا ر ہے، مگر علیٰحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے۔ یہ حَسَن بصری اور قَتَادہ اور بعض دوسرے فقہاء کا قول ہے ۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کردینے کے پُورے اختیارات ہیں۔  ابن عباس، سَعِید بن جُبَیر، ابراہیم نَخَعی، شَعبِی، محمد بن سِیرِین، اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے ۔

حضرت عثمان ؓ  اور حضرت علی ؓ  کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے اُن کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عَقیِل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عُتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان ؓ  کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس ؓ ، اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ ؓ  بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دیان ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی ؓ نے حَکَم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہیں جُدا کردیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطورِ خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا۔