اس رکوع کو چھاپیں

سنت کی آئینی حیثیت ص ۳۰۷ تا ص ۳۱۶

(اقتباس از مراسلت جو سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں مولانا مودودی اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے درمیان ہوئی تھی

تعدادِ ازواج کے مسئلے میں فاضل جج کا اجتہاد  

اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے سورۂ نسا کی تیسری آیت: و ان خفتم الا تقسطو فی الیتمیٰ فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنٰی و ثلاث و رباع کو لیتے ہیں جس کے متعلق ان کا ارشاد ہے کہ "اسے اکثر غلط استعمال کیا گیا ہے" اس آیت پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے وہ پہلی بات یہ فرماتے ہیں کہ :

"قرآن پاک کے کسی حکم کا کوئی جزء بھی فضول یا بے معنی نہ سمجھا جانا چاہیے"۔

لیکن اس کے فوراً بعد دوسرا فقرہ یہ ارشاد فرماتے ہیں :

"یہ لوگوں کے منتخب نمائندوں کا کام ہے کہ وہ اس بارے میں قانون بنائیں کہ آیا ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو کن حالات میں اور کن شرائط کے ساتھ"۔

اس اجتہاد کی پہلی غلطی

تعجب ہے کہ فاضل جج کو اپنے ان دونوں فقروں میں تضاد کیوں نہ محسوس ہوا۔ پہلے فقرے میں جو اصولی بات انہوں نے خود بیان فرمائی ہے اس کی رو سے زیرِ بحث آیت کا کوئی لفظ زائد از ضرورت یا بے معنی نہیں ہے۔ اب دیکھیے، آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس کے مخاطب افراد مسلمین ہیں۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ "اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملہ میں تم انصاف نہ کر سکوں گے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو، دو دو سے، تین تین سے اور چار چار سے، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی سہی۔۔۔۔۔۔ "

ظاہر ہے کہ عورتوں کو پسند کرنا، ان سے نکاح کرنا اور اپنی بیویوں سے عدل کرنا یا نہ کرنا افراد کا کام ہے نہ کہ پوری قوم یا سوسائٹی کا۔ لہٰذا باقی تمام فقرے بھی جو بصیغۂ جمع مخاطب ارشاد ہوئے ہیں، ان کا خطاب بھی لامحالہ افراد ہی سے ماننا پڑے گا۔ اس طرح پوری آیت اول سے لے کر آخر تک دراصل افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں مخاطب کر رہی ہے اور یہ بات انہی کی مرضی پر چھوڑ رہی ہے کہ اگر عدل کر سکیں تو چار کی حد تک جتنی عورتوں کو پسند کریں، ان سے نکاح کر لیں اور اگر یہ خطرہ محسوس کریں کہ عدل نہ کر سکیں گے تو ایک ہی پر اکتفا کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک فانکحوا ما طاب لکم اور فان خفتم الّا تعدلوا کے صیغۂ خطاب کو فضول اور بے معنی نہ سمجھ لیا جائے، اس آیت کے ڈھانچے میں نمائندگانِ قوم کس راستے سے داخل ہو سکتے ہیں؟ آیت کا کون سا لفظ ان کے لیے مداخلت کا دروازہ کھولتا ہے؟ اور مداخلت بھی اس حد تک کہ وہی اس امر کا فیصلہ بھی کریں کہ ایک مسلمان دوسری بیوی کر بھی سکتا ہے یا نہیں، حالانکہ کر سکنے کا مجاز اسے اللہ تعالیٰ نے خود بالفاظ صریح کر دیا ہے، اور پھر "کر سکنے" کا فیصلہ کرنے کے بعد وہی یہ بھی طے کریں کہ "کن حالات میں اور کن شرائط کے مطابق کر سکتا ہے"۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز فرد کے اپنے انفرادی فیصلے پر چھوڑی ہے کہ اگر وہ عدل کی طاقت اپنے اندر پاتا ہو تو ایک سے زائد کرے ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرے۔  

دوسری غلطی

 دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ "از راہِ قیاس ایسی شادی کو (یعنی ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ شادی کو) یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے" وہی عام غلطی ہے جو اس آیت کا مطلب لینے میں جدید زمانے کے بعض لوگ کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ آیت میں چونکہ یتامٰی کے ساتھ انصاف کا ذکر آ گیا ہے، اس لیے لا محالہ ایک سے زائد بیویاں کرنے کے معاملہ میں کسی نہ کسی طرح یتامٰی کا معاملہ بطور ایک لازمی شرط کے شامل ہونا چاہیے حالانکہ اگر اس بات کو ایک قاعدۂ کلیہ بنا لیا جائے کہ قرآن میں کسی خاص موقع پر جو حکم دیا گیا ہو اور اس موقع کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کر دیا گیا ہو، وہ حکم صرف اسی موقع کے لیے خاص ہو گا، تو اس سی بڑی قباحتیں لازم آئیں گی۔ مثلاً عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کو پیشہ کمانے پر زبردستی مجبور کرتے تھے۔ قرآن میں اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی کہ: لا تکرھوافتیٰتکم علی البغآء ان اردن تحصناً (النور: 33) "اپنی لونڈیوں کو بد کاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ بچی رہنا چاہتی ہوں"۔ کیا یہاں از قیاس یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں سے متعلق ہے، اور یہ کہ لونڈی اگر خود بدکار رہنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جا سکتا ہے؟

دراصل اس طرح کی قیود کا واقعاتی پس منظر جب تک نگاہ میں نہ ہو، آدمی قرآن مجید کی ایسی آیات کو، جن میں کوئی حکم بیان کرتے ہوئے خاص حالت کا ذکر کیا گیا ہے، ٹھیک نہیں سمجھ سکتا۔ آیت و ان خفتم الا تقسطو فی الیتٰمٰی کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ عرب میں اور قدیم زمانے کی پوری سوسائٹی میں، صد ہا برس سے تعداد ازواج مطلقاً مباح تھا۔ اس کے لیے کوئی نئی اجازت دینے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی، کیونکہ قرآن کا کسی رواج عام سے منع کرنا خود ہی اس رواج کی اجازت کا ہم معنی تھا۔ اس لیے فی الحقیقت یہ آیت تعددد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ جنگ احد کے بعد جو بہت سی عورتیں کئی کئی بچوں کےساتھ بیوہ رہ گئی تھیں، ان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اس میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر شہدائے احد کے یتیم بچوں کے ساتھ تم یوں انصاف نہیں کر سکتے تو تمہارے لیے ایک سے زائد بیویاں کرنے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا ہے، ان کی بیوہ عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان کے ساتھ نکاح کر لو تاکہ ان کے بچے تمہارے اپنے بچے بن جائیں اور تمہیں ان کے مفاد سے ذاتی دلچسپی پیدا ہو جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی منطق کی رو سے بھی نہیں نکالا جا سکتا کہ تعدد ازواج صرف اسی حالت میں جائز ہے جبکہ یتیم بچوں کی پرورش کا مسئلہ درپیش ہو۔ اس آیت نے اگر کوئی نیا قانون بنایا ہے تو وہ تعدد ازواج کی اجازت دینا نہیں ہے، کیونکہ اس کی اجازت تو پہلے ہی تھی اور معاشرے میں ہزاروں برس سے اس کا رواج موجود تھا، بلکہ دراصل اس میں جو نیا قانون دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد پر چار کی قید لگا دی گئی جو پہلے نہ تھی۔  

تیسری غلطی

 تیسری بات فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ "اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیونکہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا، تو 8 کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے"۔ اس عجیب طرز استدلال کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ ایک مسلمان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے گا تو وہ اس آزادی کو استعمال کرتا ہے جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں خدا نے اسے دی ہے۔ وہ اس آزادی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں بھی استعمال کر سکتا ہے، ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے میں استعمال کر سکتا ہے اور کسی وقت اس کی رائے بدل جائے تو ایک سے زائد بیویاں کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے لیکن جب قوم تمام افراد کے بارے میں کوئی مستقل قانون بنا دے گی تو فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کر لے گی جو خدا نے اسے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسی قیاس پر کیا قوم کسی وقت یہ فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے کہ اس کے آدھے افراد شادی کریں اور آدھے نہ کریں؟ جس کی بیوی یا شوہر مر جائے وہ نکاحِ ثانی نہ کرے؟ ہر آزادی جو افراد کو دی گئی ہے اسے بنائے استدلال بنا کر قوم کو یہ آزادی دینا کہ وہ افراد سے ان کی آزادی سلب کرے، ایک منطقی مغالطہ تو ہو سکتا ہے، مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ قانون میں یہ طرز استدلال کب سے مقبول ہوا ہے۔

تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت مثلاً ان میں سے 4 کروڑ ایک ہزار مل کر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف چند ہزار مل کر اپنی ذاتی رائے سے اس طرح کا کوئی قانون تجویز کریں اور اکثریت کی رائے کے خلاف اسے مسلط کر دیں تو فاضل جج کے بیان کردہ اصول کی رو سے اس کا کیا جواز ہو گا؟ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں سے ایک لاکھ بلکہ پچاس ہزار کا بھی نقطۂ نظر یہ نہیں ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا تو قانوناً ممنوع ہو، البتہ اس کا "گرل فرینڈس" سے آزادانہ تعلق، یا طوائفوں سے ربط و ضبط، یا مستقل داشتہ رکھنا از روئے قانون جائز رہے۔ خود وہ عورتیں بھی، جن کے لیے سوکن کا تصور ہی تکلیف دہ ہے، کم ہی ایسی ہوں گی جن کے نزدیک ایک عورت سے ان کے شوہر کا نکاح ہو جائے تو ان کی زندگی ستی سے بدتر ہو جائے گی، لیکن اسی عورت سے ان کے شوہر کا نا جائز تعلق رہے تو ان کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے گی۔

چوتھی غلطی  

پھر فاضل جج فرماتے ہیں :
"اس آیت کو قرآن کی دوسری دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی آیت سورۂ نور نمبر 33 ہے جس میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں، ان کو شادی نہ کرنی چاہیے۔ اگر ذرائع کی کمی کے باعث ایک شخص کو ایک بیوی کرنے سے روکا جا سکتا ہے تو انہی وجوہ یا ایسے ہی وجوہ کی بنا پر اسے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے روک دیا جانا چاہیے۔ "

یہاں پھر موصوف نے خود اپنے بیان کردہ اصول کو توڑ دیا ہے۔ آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں :
ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحاً حتٰی یغنیھم اللہ من فضلہ
"اور عفت مآبی سے کام لیں وہ لوگ جو نکاح کا موقع نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے"۔

ان الفاظ میں یہ مفہوم کہاں سے نکلتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نکاح نہ کرنا چاہیے؟ اگر قرآن کی کسی آیت کے الفاظ کو "فضول و بے معنی" سمجھنا درست نہیں ہے تو نکاح سے منع کر دینے کا تصور اس آیت میں کسی طرح داخل نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اللہ نکاح کے ذرائع فراہم نہ کر دے اس وقت تک مجرد لوگ عفت مآب بن کر رہیں۔ بد کاریاں کر کے نفس کی تسکین نہ کرتے پھریں۔ تاہم اگر کسی نہ کسی طرح نکاح سے منع کر دینے کا مفہوم ان الفاظ میں داخل کر بھی دیا جائے، پھر بھی اس کا روئے سخن فرد کی طرف ہے، نہ کہ قوم یا ریاست کی طرف۔ یہ بات فرد کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے کہ کب وہ اپنے آپ کو شادی کر لینے کے قابل پاتا ہے اور کب نہیں پاتا اور اسی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ (اگر فی الواقع ایسی کوئی ہدایت کی بھی گئی ہے) کہ جب تک وہ نکاح کے ذرائع نہ پائے، نکاح نہ کرے۔ اس میں ریاست کو یہ حق کہاں دیا گیا ہے کہ وہ فرد کے اس ذاتی معاملہ میں دخل دے اور یہ قانون بنا دے کہ کوئی شخص اس وقت تک نکاح نہ کرنے پائے جب تک وہ ایک عدالت کے سامنے اپنے آپ کو ایک بیوی اور گنتی کے چند بچوں (جن کی تعداد مقرر کر دینے کا حق بھی فاضل جج کی رائے میں یہی آیت ریاست کو عطا کرتی ہے) پرورش کے قابل ثابت نہ کر دے؟ آیت کے الفاظ اگر "فضول اور بے معنی" نہیں ہیں تو اس معاملے میں ریاست کی قانون سازی کا جواز ہمیں بتایا جائے کہ اس کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟ اور اگر نہیں نکلتا تو اس آیت کی بنیاد پر مزید پیش قدمی کر کے ایک سے زائد بیویوں اور مقررہ تعداد سے زائد بچوں کے معاملہ میں ریاست کو قانون بنانے کا حق کیسے دیا جا سکتاہے؟


پانچویں غلطی

دوسری آیت جسے سورۂ نساء کی آیت نمبر 3 کے ساتھ ملا کر پڑھنے اور اس سے ایک حکم نکالنے کی فاضل جج نے کوشش فرمائی ہے وہ سورۂ نساء کی آیت 129 ہے۔ اس کا صرف حوالہ دینے پر انہوں نے اکتفاء نہیں فرمایا ہے، بلکہ اس کے الفاظ انہوں نے خود نقل کر دیے ہیں، اور وہ یہ ہیں

ولا تستطیعوا ان تعدلو بین النسآء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقہ و ان تصلحو۱ و تتقوا فان اللہ کان غفوراً رحیماً

"اور تم ہر گز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ عدل کرو عورتوں (یعنی بیویوں) کے درمیان، خواہ تم اس کے کیسے ہی خواہش مند ہو لہٰذا (ایک بیوی کی طرف) بالکل نہ جھک پڑو کہ (دوسری کو) معلق چھوڑ دو اور اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ یقیناً درگزر کرنے والا اور رحیم ہے"۔

ان الفاظ کی بنیاد پر فاضل جج پہلے تو یہ فرماتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا انسان ہستیوں کے بس میں نہیں ہے" پھر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ "یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ ان دونوں آیتوں میں تطبیق دینے کے لیے ایک قانون بنائے، اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر پابندیاں عائد کرے۔ وہ کہہ سکتی ہے کہ دو بیویاں کرنے کی صورت میں چونکہ سالہا سال کے تجربات سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے اور قرآن میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں ہو سکتا، لہٰذا یہ طریقہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے"۔

ہمیں سخت حیرت ہے کہ اس آیت میں سے اتنا بڑا مضمون کس طرح اور کہاں سے نکل آیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ تو ضرور فرمایا ہے کہ انسان دو یا زائد بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل اگر کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا، مگر کیا اس بنیاد پر اس نے تعدد ازواج کی وہ اجازت واپس لے لی جو عدل کی شرط کے ساتھ اس نے خود ہی سورۂ نساء کی آیت نمبر 3 میں دی تھی؟ آیت کے الفاظ بتا رہے تھے کہ اس فطری حقیقت کو صریح لفظوں میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دو یا زائد بیویوں کے شوہر سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک بیوی کی طرف اس طرح ہمہ تن نہ مائل ہو جائے کہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق چھوڑ دے۔ بالفاظ دیگر پورا پورا عدل نہ کر سکنے کا حاصل قرآن کی رو سے یہ نہیں ہے کہ تعدد ازواج کی اجازت ہی سرے سے منسوخ ہو جائے بلکہ اس کے برعکس اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ شوہر ازدواجی تعلق کے لیے ایک بیوی کو مخصوص کر لینے سے پرہیز کرے اور ربط و تعلق سب بیویوں سے رکھے خواہ اس کا دلی میلان ایک ہی کی طرف ہو۔ یہ حکم ریاست کو مداخلت کا موقع صرف اس صورت میں دیتا ہے جبکہ ایک شوہر نے اپنی دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق کر کے رکھ دیا ہو۔ اسی صورت میں وہ بے انصافی واقع ہو گی جس کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن منطق کی رو سے بھی اس آیت کے الفاظ اور اس کی ترکیب اور فحویٰ سے یہ گنجائش نہیں نکالی جا سکتی کہ معلق نہ رکھنے کی صورت میں ایک ہی شخص کے لیے تعدد ازواج کو از روئے قانون ممنوع ٹھہرایا جا سکے، کجا کہ اس میں سے اتنا بڑا مضمون نکال لیا جائے کہ ریاست تمام لوگوں کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنے کو مستقل طور پر ممنوع ٹھہرا دے۔ قرآن کی جتنی آیتوں کو بھی آدمی چاہے، ملا کر پڑھے، لیکن قرآن کے الفاظ میں قرآن ہی کا مفہوم پڑھنا چاہیے، کوئی دوسرا مفہوم کہیں سے لا کر قرآن پڑھنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ مفہوم قرآن سے نکل رہا ہے، کسی طرح بھی درست طریقِ مطالعہ نہیں ہے کجا کہ اسے درست طریق اجتہاد مان لیا جائے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم فاضل جج کو اور ان کا سا طرزِ فکر رکھنے والے دوسرے حضرات کو بھی، ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جن آیات پر وہ کلام فرما رہے ہیں، ان کو نازل ہوئے 1378 سال گزر چکے ہیں۔ اس پوری مدت میں مسلم معاشرہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں مسلسل موجود رہا ہے۔ آج کسی ایسی معاشی یا تمدنی یا سیاسی حالت کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی جو پہلے کسی دور میں بھی مسلم معاشرے کو پیش نہ آئی ہو لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلی صدی کے نصف آخر سے پہلے پورے دنیائے اسلام میں کبھی یہ تخیل پیدا نہ ہوا کہ تعدد ازواج کو روکنے یا اس پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے؟ کیا اس کی کوئی معقول توجیہ اس کے سوا کی جا سکتی ہے کہ اب ہمارے ہاں یہ تخیل ان مغربی قوموں کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ایک قبیح و شنیع فعل، خارج از نکاح تعلقات کو (بشرط تراضی طرفین) حلال و طیب، یا کم از کم قابل در گزر سمجھتی ہیں؟ جن کے ہاں داشتہ رکھنے کا طریقہ قریب قریب مسلم ہو چکا ہے مگر اسی داشتہ سے نکاح کر لینا حرام ہے؟ اگر صداقت کے ساتھ فی الواقع اس کے سوا اس تخیل کے پیدا ہونے کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس طرح خارجی اثرات سے متاثر ہو کر قرآن آیات کی تعبیریں کرنا کیا کوئی صحیح طریق اجتہاد ہے؟ اور کیا عام مسلمانوں کے ضمیر کو ایسے اجتہاد پر مطمئن کیا جا سکتا ہے؟

[بشکریہ ٹائپنگ: قسیم حیدر، فہد کیہر، خاور بلال، ماوراء، محمد شمشاد خاں، محب علوی تصحیح: جویریہ مسعود، اعجاز عبید]