یعنی بجائے اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ
دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا
خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے ، اسے یہ دیکھنا
چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے ۔ اسے فکر اپنے خیالات کی،
اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر آدمی خود
اللہ کی اطاعت کر رہا ہے، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں
انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست روی و راست بازی کی
مقتضیا ت پُورے کر رہا ہے، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی
شامل ہے، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے
لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔ |