اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١۴

اِس  آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حُکم ان تینوں پر حاوی ہے:

(۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پُوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت  کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبَل دیوتا کے بُت کو مخصُوص کر رکھا تھا ۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور  فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پُوچھنا ہو، یا خُون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحبِ القِداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نِکل آتا اس پر لِکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔

(۲) توہّم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلۂ علمِ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔

(۳)جُوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نِکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نِکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نِکل آیا ہو جو صاحبِ معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔

اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قُرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صُورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے  بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صُورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے ۔ اس صُورت میں ضرورت ہو تو قریہ اندازی کی جاسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعمُوم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ ؐ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ ؐ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہو گا۔