اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١٦

دین کو مکمل کر دینے سے مُراد ُس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مُراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فر مایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کو جُوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبُوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ  سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نِکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہین تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حُدُود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔

مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ  الوداع  کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلۂ  کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ۶ ہجری) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ  کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا  اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ،  وَ الْعِلْم ُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اِسی سیاق ِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیّت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔