اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١۹

شکاری جانوروں سے مُراد کُتّے، چیتے، باز، شِکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سَدھائے ہوئے جانور کی خصُوصیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑ ا ہوا جانور حرام ہے اور سَدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔

اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ  کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ  اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا  ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا  ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصّہ بھی وہ کھا لے تو بقیّہ دوتہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک  امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سےیہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے۔