اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۵۳

یعنی چونکہ بنی اسرائیل کے اندر اُنہی صفات کے آثار پائے جاتے تھے جن کا اظہار  آدم کے اس ظالم بیٹے نے لیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ا ن کو قتلِ نفس سے باز رہنے کی سخت تاکید کی تھی اور اپنے فرمان میں یہ الفاظ لکھے  تھے۔ افسوس ہے کہ آج جو بائیبل پائی جاتی ہے وہ فرمانِ خداوندی کے ان قیمتی الفاظ سے خالی ہے۔ البتہ تلمُود میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:” جس نے ارائیل کی ایک جان کو ہلاک کیا، کتاب اللہ کی نگاہ میں اس نے گویا ساری دنیا کو ہلاک کیا، اور جس نے اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، کتاب اللہ کی نزدیک اس نے گویا ساری دنیا کی حفاظت کی“۔ اسی طرح تلمود میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ قتل کے مقدمات میں بنی اسرائیل کے قاضی گواہوں کو خطاب کر کے کہا کرتے تھےکہ”جو شخص ایک انسان کی جان ہلاک کرتا ہے وہ ایسی باز پرس کا مستحق ہے کہ گویا اس نے دُنیا بھر کے انسانوں کو قتل کیا ہے“۔