اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۵۹

اصل میں  لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہُوم محض ”جدوجہد“ سے پُوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہُوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں، جو  تم کو خد اکی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پُوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبُور کرتی ہیں، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدو جہد کرو۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے۔

اس طرح یہ آیت بندہء مومن کو ہر محاذ پر چو مُکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے۔ ایک طرف ابلیسِ لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے۔ دُوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدّنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدّنی اور سیاسی نظا م ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگیِ حق کے بجائے بندگیِ باطل پر انسان کو مجبُور کرتے ہیں۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقربِ خداوندی کے مقام تک اس کے عُروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے۔ لہٰذا اپنے مقصُود تک اس کا پہنچنا بغیر اِس کے ممکن نہیں  ہے کہ وہ اِن تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما  ہو، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رُکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے۔