دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ۔ اور اُمّت کا اس پر بھی
اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ بنی صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ ہدایت بھِ فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ
کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اِس فعل پر ہوتا ہے کہ آدمی
کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت
سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس ؓ
دس درہم ، بروایت ابن عمر ؓ تین درہم، بروایت
انس بن مالک ؓ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ ؓ ایک چوتھائی دینار ہوتی
تھی۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصابِ سرقہ میں اختلاف
ہوا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس
درہم ہے اور امام مالک ؒ شافعی ؒ اور احمد ؒ کے نزدیک چوتھائی دینار۔ (اُس
زمانہ کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱/۵ رتی چاندی ہوتی تھی۔
اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا)۔ |