اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر٦١

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کٹنے کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنے نفس کو چوری سے پاک کر کے اللہ کا صالح بندہ بن جائے وہ اللہ کے غضب سے بچ جائے گا ، اور اللہ اس کے  دامن سے اس داغ کو دھو دے گا۔ لیکن اگر کسی شخص نے ہاتھ کٹوا نے کے بعد بھی اپنے آپ کو بدنیتی سے پاک نہ کیا اور وہی گندے جذبات اپنے اندر پرورش کیے جن کی بنا پر اس نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ  ہاتھ تو اس کے بدن سے جدا ہو گیا مگر چوری اس کے نفس میں بدستور موجود رہی، اس وجہ سے وہ خدا کے غضب کا اسی طرح مستحق رہے گا جس طرح ہاتھ کٹنے سے پہلے تھا۔ اِسی لیے قرآن مجید چور کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے نفس کی اصلاح کرے ۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنا توانتظامِ تمدّن کے لیے ہے۔ اس سزا سے نفس پاک نہیں  ہو سکتا۔ نفس کی پاکی صرف توبہ اور رُجوع اِلی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں مذکور ہے کہ ایک چور کا ہاتھ جب آپ کے حکم کے مطابق کاٹا جا چکا  تو آپ ؐ نے اُسے اپنے پاس بلایا اور اس سے فرمایا قل اسْتغفر اللہ و اتوب الیہ۔”کہہ میں خدا سے معافی چاہتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں“۔ اُس  نے آپ ؐ کی تلقین کے مطابق یہ  الفاظ کہے۔ پھر آپ ؐ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اَلّٰھُمَّ تُبْ عَلَیْہِ۔”خدایا اسے معاف فر ما دے“۔