یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں
بنے تھے بلکہ اسلامی حکوت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے۔ ان
معاہدات کی رُو سے یہودیوں کو اپنے اندر ونی معاملات میں آزادی حاصل تھی
اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق اُن کے اپنے جج کرتے
تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے
مقدمات لانے کے لیے وہ ازرُوئے قانون مجبُور نہ تھے۔ لیکن یہ لوگ جن
معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے اُن کا
فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس اُمید پر آجاتے تھے
کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دُوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے
مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں۔ ()”“ |