اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۷۷

”یہاں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ  قانون کے مطابق فیصلہ  نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دُوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکمِ خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دُوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف  از حکمِ خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں ۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکمِ الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دُوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو اعتقاداً حکمِ الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگر چہ خارج از مِلّت  تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اِسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکمِ الہٰی سے اِنحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات  میں کافر،  ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم  و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے۔ بعض اہلِ تفسیر نے ان آیات کے اہلِ کتاب کے ساتھ مخصُوص قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ مگر کلامِ الہٰی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس تاویل کا بہترین جواب  وہ ہے جو حضرت حذیفہ ؓ  نے دیا ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر ، وہی ظالم اور وہی فاسق ہے۔ اس پر حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا   نعم الاخرۃ لکم بنو اسرائیل اَن کانت لھم کل مُرّ ۃ ولکم کل حلوۃ کلّا واللہ لتسلکن طریقھم قدر الشراک۔” کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ  بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب اُن کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمہارے لیے ! ہرگز نہیں ، خدا کی قسم تم انہی کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے۔